دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا
یہ مسافر آج منزل پر سر شام آئے گا
گو برا ہے دل مگر رہنے دیا ہے اس لئے
عشق کی خوگر طبیعت ہے کبھی کام آئے گا
عشق دل کامل نہیں دیکھو ابھی کھولو نہ زلف
صید جب شہباز ہے کیوں کر نہ تہہ دام آئے گا
قاصد مرگ آئے یا آئے تمہارا نامہ بر
کہہ رہا ہے دل کہ کوئی آج پیغام آئے گا
جام غوطہ کر کے کوثر سے منگائی ہے شراب
مجھ کو فرماتے ہیں وہ پابند اسلام آئے گا
نیک ناموں کا ہو مجمع بزم ہو آراستہ
آپ خوش ہوں یا خفا ہوں ایک بدنام آئے گا
تم نہا لو جلد ورنہ رشک سے مر جاؤں گا
دم میں اب سایہ سر دیوار حمام آئے گا
دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا
ترک کر دو شاعری کو عقل رکھتے ہو رشیدؔ
ہو چکے ہو پیر اب کیا تم کو یہ کام آئے گا
غزل
دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا
رشید لکھنوی