EN हिंदी
دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں | شیح شیری
dil hamara hai ki hum mail-e-fariyaad nahin

غزل

دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں

عزیز لکھنوی

;

دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں
ورنہ کیا ظلم نہیں کون سی بیداد نہیں

حسن اک شان الٰہی ہے مگر اے بے مہر
بے وفائی تو کوئی حسن خداداد نہیں

سر تربت وہ خموشی پہ مری کہتے ہیں
مرنے والے تجھے پیمان وفا یاد نہیں

حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر
کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں

لاکھ پابند‌ علائق نہ رہے کوئی یہاں
طبع وارستہ مگر فکر سے آزاد نہیں

باہم آئین وفا رسم محبت کیسی
وقت اب وہ ہے کہ بندوں کو خدا یاد نہیں

چشم مخمور وہ ہے کابل غرق مے ناب
دفتر عشق پہ جب تک کہ مرے صاد نہیں

پوچھتے کیا ہو تباہی کا فسانہ مجھ سے
دل برباد کی صورت بھی مجھے یاد نہیں

ذرے ذرے میں ہے اک عالم معنی پنہاں
خاک برباد کو سمجھے ہو کہ آباد نہیں

آپ کہتے ہیں کہ ہے گور غریباں ویراں
ایسی بستی تو جہاں میں کوئی آباد نہیں

آنسوؤں کو بھی ذرا دیکھ لے رونے والے
ان ستاروں میں تو دنیا کوئی آباد نہیں

حسن خود میں نے کیے آئنے کے سو ٹکڑے
اب نہ کہنا کہ نگاہیں ستم ایجاد نہیں

کب خیالات پہ ممکن ہے کسی کا پہرہ
دل تو آزاد رہا میں اگر آزاد نہیں

سینہ کاوی کے لیے شرط ہے دل کی ہمت
ناخن دست جنوں تیشۂ فرہاد نہیں

بے خودی منزل عرفاں ہے ذرا ہوش میں آ
ہے خودی کا یہ نتیجہ کہ خدا یاد نہیں

طبقۂ خاک میں ہے عالم خاموش آباد
جس کو برباد سمجھتے ہو وہ برباد نہیں

دل ویراں کی تباہی کی کوئی حد ہے عزیزؔ
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ابھی آباد نہیں