دل ہیں یوں مضطرب مکانوں میں
مچھلیاں جیسے مرتبانوں میں
دھوپ سے ڈھونڈتے ہیں راہ فرار
لوگ شیشے کے سائبانوں میں
بے ارادہ کلام کی خواہش
بے سبب لکنتیں زبانوں میں
تیری آمد پہ جیسے لوٹ آیا
وقت گزرے ہوئے زمانوں میں
دل دھڑکتا ہے ہر ستارے کا
آج کی رات آسمانوں میں
زنگ آلود ہو گئے جذبی
جم گئے حرف سرد خانوں میں
ریشمی لوگ ڈھونڈتے ہیں ہم
شہر کے آہنی مکانوں میں
غزل
دل ہیں یوں مضطرب مکانوں میں
اعتبار ساجد