دل ہے یا میلے میں کھویا ہوا بچہ کوئی
جس کو بہلا نہیں سکتا ہے کھلونا کوئی
میں تو جلتے ہوئے زخموں کے تلے رہتی ہوں
تو نے دیکھا ہے کبھی دھوپ کا صحرا کوئی
میں لہو ہوں تو کوئی اور بھی زخمی ہوگا
اپنی دہلیز پہ پھینکو تو نہ شیشہ کوئی
خواہشیں دل میں مچل کر یونہی سو جاتی ہیں
جیسے انگنائی میں روتا ہوا بچہ کوئی
زائچے تو نے امیدوں کے بنائے تھے مگر
مٹ گئے حرف گرا آنکھوں سے قطرہ کوئی
چاندنی جب بھی اترتی ہے مرے آنگن میں
کھولتا ہے تری یادوں کا دریچہ کوئی
میرا گھر جس کے در و بام بھی مہمان سے تھے
کاش اس اجڑے ہوئے گھر میں نہ آتا کوئی
دل کوئی پھول نہیں ہے کہ اگر توڑ دیا
شاخ پر اس سے بھی کھل جائے گا اچھا کوئی
تم بھرے شہر میں افکار لیے پھرتے ہو
سب تو مفلس ہیں خریدے گا یہاں کیا کوئی
رات تنہائی کے میلے میں مرے ساتھ تھا وہ
ورنہ یوں گھر سے نکلتا ہے اکیلا کوئی
آفریںؔ درد کا احساس مٹا ہے ایسے
جیسے بچپن میں بنایا تھا گھروندا کوئی

غزل
دل ہے یا میلے میں کھویا ہوا بچہ کوئی
عشرت آفریں