دل ہے پلکوں میں سمٹ آتا ہے آنسو کی طرح
ریشمی رات کی بھیگی ہوئی خوشبو کی طرح
زندگی آج ہے یادوں کے تعاقب میں رواں
ریت کے ٹیلوں پہ گرد رم آہو کی طرح
آن کی آن میں تاریخ بدل جاتی ہے
شکن زلف کی صورت خم ابرو کی طرح
تولنے کے لئے پھولوں کی ترازو بھی تو ہو
فکر و احساس بھی تل جاتے ہیں خوشبو کی طرح
شہر افسوس میں اپنے ہیں نہ بیگانے ہیں
اب دل و جاں کے بھی رشتے ہیں من و تو کی طرح
بجلیاں ہیں کہ چمکتی ہیں رگ جاں کے قریب
جام صہبا کی طرح حلقۂ گیسو کی طرح
تیری یادوں کی کہانی تو نہیں ہے تنویرؔ
دل پہ دستک جو دیا کرتا ہے خوشبو کی طرح

غزل
دل ہے پلکوں میں سمٹ آتا ہے آنسو کی طرح
تنویر احمد علوی