دل ہے کہ ہمیں پھر سے ادھر لے کے چلا ہے
امید سے پھر رشتۂ جاں باندھ لیا ہے
آہٹ پہ نہ چونکو کہ نہ آئے گی یہاں موت
دستک پہ نہ جاؤ کہ یہ آوارہ ہوا ہے
اب سنگ مداوا نہیں آشفتہ سری کا
یاں سنگ سے بھی پھوڑ کے سر دیکھ لیا ہے
کیا کیجیے ہر کاوش درماں ہوئی محدود
ہر جادۂ امکاں ہے کہ مسدود ہوا ہے
زندہ ہیں بہر طور کہ مرنا نہیں بس میں
تا عمر ہمارے لیے جینے کی سزا ہے
اے دل کبھی پتھر بھی کہیں موم ہوئے ہیں
جو خواب میں دیکھا ہے کہیں سچ بھی ہوا ہے
غزل
دل ہے کہ ہمیں پھر سے ادھر لے کے چلا ہے
آصف جمال