EN हिंदी
دل ہے بیمار کیا کرے کوئی | شیح شیری
dil hai bimar kya kare koi

غزل

دل ہے بیمار کیا کرے کوئی

ذکی کاکوروی

;

دل ہے بیمار کیا کرے کوئی
کس طرح سے دوا کرے کوئی

جب کہ تم بن کہیں قرار نہ ہو
پھر بتاؤ کہ کیا کرے کوئی

وہ نہ اپنی روش کو بدلیں گے
چاہے جو کچھ کہا کرے کوئی

طاقتوں نے مری جواب دیا
اب بتاؤ کہ کیا کرے کوئی

بڑھتی جاتی ہیں دھڑکنیں دل کی
آ بھی جائے خدا کرے کوئی

ان کو فرصت کہاں سنورنے سے
اب جئے یا مرا کرے کوئی

جب تعلق نہ کوئی باقی ہو
کس طرح سے وفا کرے کوئی

سب یہ تقدیر کے کرشمے ہیں
کیا کسی سے گلا کرے کوئی

ہم تو طالب نہیں وفاؤں کے
کاش ہم سے جفا کرے کوئی

پھر ذکیؔ دل کو یہ تمنا ہے
ہم سے ناز و ادا کرے کوئی