EN हिंदी
دل ہے بیتاب نظر کھوئی ہوئی لگتی ہے | شیح شیری
dil hai betab nazar khoi hui lagti hai

غزل

دل ہے بیتاب نظر کھوئی ہوئی لگتی ہے

تلک راج پارس

;

دل ہے بیتاب نظر کھوئی ہوئی لگتی ہے
زندگی دکھ میں بہت روئی ہوئی لگتی ہے

تجھ کو سوچوں تری طاعت میں رہوں تو مجھ کو
خوشبوؤں سے یہ زمیں دھوئی ہوئی لگتی ہے

سانس لیتے ہی دھواں دل میں اتر جاتا ہے
آگ سی شے یہاں کچھ بوئی ہوئی لگتی ہے

سامنے حشر نظر آتا ہے لیکن دنیا
خواب غفلت میں ابھی سوئی ہوئی لگتی ہے

سب ظفر یاب ہوئے اپنے سفر میں پارسؔ
میری منزل ہی فقط کھوئی ہوئی لگتی ہے