دل ہے بڑی خوشی سے اسے پائمال کر
لیکن ترے نثار ذرا دیکھ بھال کر
اتنا تو دل فریب نہ تھا دام زندگی
لے آئے اعتبار کے سانچے میں ڈھال کر
ساقی مرے خلوص کی شدت کو دیکھنا
پھر آ گیا ہوں گردش دوراں کو ٹال کر
اے دوست تیری زلف پریشاں کی خیر ہو
میری تباہیوں کا نہ اتنا خیال کر
آیا ہوں یوں بچا کے حوادث سے زیست کو
لاتے ہیں جیسے کوہ سے چشمہ نکال کر
تھوڑے سے فاصلے میں بھی حائل ہیں لغزشیں
ساقی سنبھال کر مرے ساقی سنبھال کر
ہم سے عدمؔ چھپاؤ تو خود بھی نہ پی سکو
رکھا ہے تم نے کچھ تو صراحی میں ڈال کر
غزل
دل ہے بڑی خوشی سے اسے پائمال کر
عبد الحمید عدم