دل ہے اور خود نگری ذوق دعا جس کو کہیں
بے خودی چاہیئے ہم کو کہ خدا جس کو کہیں
ہم سے آباد ہے دنیائے تصور تو کیا
کہ نہیں ایک وہ تصویر خدا جس کو کہیں
جرأت شوق ہے کہتے ہیں محبت جس کو
اسی جرأت پہ ہے اصرار وفا جس کو کہیں
سمجھ اے دوست اسے ضرب نظر کی آواز
ہم کبھی دل کے دھڑکنے کی صدا جس کو کہیں
قلزم دل نہ ہوا آئینہ ساماں اے دوست
ابھی آ جاتی ہے اک موج دعا جس کو کہیں
ہے ترے کیسۂ پندار میں ایسی کوئی چیز
دل کی بیتاب محبت کا صلہ جس کو کہیں
غزل
دل ہے اور خود نگری ذوق دعا جس کو کہیں
اجتبیٰ رضوی