دل ہے اپنا تو غم پرائے ہیں
ہائے کیا کیا فریب کھائے ہیں
تار اشکوں کا کس طرح ٹوٹے
ہم بھی اک بار مسکرائے ہیں
تکیہ تھا زاد راہ پر اپنا
راہزن کتنے کام آئے ہیں
میں یہ سمجھا تھا ہم سفر ہوں گے
آہ کتنے مہیب سائے ہیں
بھول بیٹھے ہوں وہ کہیں اے دل
آج کیوں اتنے یاد آئے ہیں
غزل
دل ہے اپنا تو غم پرائے ہیں
دل ایوبی