EN हिंदी
دل ہے اپنا تو غم پرائے ہیں | شیح شیری
dil hai apna to gham parae hain

غزل

دل ہے اپنا تو غم پرائے ہیں

دل ایوبی

;

دل ہے اپنا تو غم پرائے ہیں
ہائے کیا کیا فریب کھائے ہیں

تار اشکوں کا کس طرح ٹوٹے
ہم بھی اک بار مسکرائے ہیں

تکیہ تھا زاد راہ پر اپنا
راہزن کتنے کام آئے ہیں

میں یہ سمجھا تھا ہم سفر ہوں گے
آہ کتنے مہیب سائے ہیں

بھول بیٹھے ہوں وہ کہیں اے دل
آج کیوں اتنے یاد آئے ہیں