دل ہے اپنا نہ اب جگر در پیش
ہے تری چشم معتبر در پیش
لوگ بیمار کیوں نہ پڑ جاتے
جب کہ تھا حسن چارہ گر در پیش
میں ہوا چاہتا تھا بے قابو
زندگی ہو گئی مگر در پیش
بات کہنی ہے اور اس میں بھی
لفظ و معنی کا ہے سفر در پیش
اہل نقد و نظر پریشاں ہیں
جب سے جامیؔ کا ہے ہنر در پیش

غزل
دل ہے اپنا نہ اب جگر در پیش
رحمان جامی