دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات
غم دوراں میں ہے عکس غم یار آج کی رات
کوئی منصور سے جا کر یہ کہو ہم نفسو
ہوں بہ تعزیر خموشی سر دار آج کی رات
غم کے محور پہ ہیں ٹھہرے ہوئے افلاک و نجوم
میری محفل میں نہیں وقت کو بار آج کی رات
نہ مکاں آج ہے ثابت نہ زماں ہے سیار
نہ خزاں شعبدہ آرا نہ بہار آج کی رات
کبھی فردوس گل و لالہ تھی جو کشت خیال
اس سے بے ساختہ اگتے ہیں شرار آج کی رات
بوئے خوں آتی ہے صحرائے تمنا سے مجھے
کھیلتا ہوں دل وحشی کا شکار آج کی رات
تجھے معلوم ہے عابدؔ کہ بیاض دل پر
ناخن غم نے کئے نقش و نگار آج کی رات
غزل
دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات
سید عابد علی عابد