دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
عشق کی خامکاریاں نہ گئیں
مر مٹے نام پر وفا کے ہم
تیری بے اعتباریاں نہ گئیں
لب پہ آیا نہ اس کا نام کبھی
غم کی پرہیز گاریاں نہ گئیں
کھپ گئی جان بجھ گئے تیور
اشک کی تابداریاں نہ گئیں
توبہ کرنے کو ہم نے کی تو مگر
توبہ کی شرمساریاں نہ گئیں
جان آ ہی گئی لبوں پہ مگر
شوق کی پردہ داریاں نہ گئیں
وہ ہے کینہ کہ سرد مہری ہے
اپنی جانب سے یاریاں نہ گئیں
گریہ بھی ہے اثرؔ کا مستانہ
نہ گئیں بادہ خواریاں نہ گئیں
غزل
دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
اثر لکھنوی