EN हिंदी
دل گیا بے قراریاں نہ گئیں | شیح شیری
dil gaya be-qarariyan na gain

غزل

دل گیا بے قراریاں نہ گئیں

اثر لکھنوی

;

دل گیا بے قراریاں نہ گئیں
عشق کی خامکاریاں نہ گئیں

مر مٹے نام پر وفا کے ہم
تیری بے اعتباریاں نہ گئیں

لب پہ آیا نہ اس کا نام کبھی
غم کی پرہیز گاریاں نہ گئیں

کھپ گئی جان بجھ گئے تیور
اشک کی تابداریاں نہ گئیں

توبہ کرنے کو ہم نے کی تو مگر
توبہ کی شرمساریاں نہ گئیں

جان آ ہی گئی لبوں پہ مگر
شوق کی پردہ داریاں نہ گئیں

وہ ہے کینہ کہ سرد مہری ہے
اپنی جانب سے یاریاں نہ گئیں

گریہ بھی ہے اثرؔ کا مستانہ
نہ گئیں بادہ خواریاں نہ گئیں