EN हिंदी
دل گوارہ چبھن ہی مرتی ہے | شیح شیری
dil-gawara chubhan hi marti hai

غزل

دل گوارہ چبھن ہی مرتی ہے

خمار میرزادہ

;

دل گوارہ چبھن ہی مرتی ہے
اب تمہاری لگن ہی مرتی ہے

قدر کیا دعویٔ انا الحق کی
فکر دار و رسن ہی مرتی ہے

روح کی بحث کس لیے کہ یہاں
آرزوئے بدن ہی مرتی ہے

شام گوشہ نشینی کیا کیجے
صبح سیر چمن ہی مرتی ہے

اس کہانی میں اک روایت سے
کیوں کوئی گل بدن ہی مرتی ہے