دل گوارہ چبھن ہی مرتی ہے
اب تمہاری لگن ہی مرتی ہے
قدر کیا دعویٔ انا الحق کی
فکر دار و رسن ہی مرتی ہے
روح کی بحث کس لیے کہ یہاں
آرزوئے بدن ہی مرتی ہے
شام گوشہ نشینی کیا کیجے
صبح سیر چمن ہی مرتی ہے
اس کہانی میں اک روایت سے
کیوں کوئی گل بدن ہی مرتی ہے

غزل
دل گوارہ چبھن ہی مرتی ہے
خمار میرزادہ