دل ناصبور کو پھر وہی بت بے وفا کی تلاش ہے
غم ابتدا تو اٹھا چکا غم انتہا کی تلاش ہے
کسی بے وفا کا گلہ بھی ہے کسی با وفا کی تلاش ہے
یہ فریب شوق کہ دل کو پھر کسی آشنا کی تلاش ہے
ترا غم ہی غم رہے عمر بھر ترے غم میں خود کو فنا کروں
مجھے ابتدائے شعور سے اسی انتہا کی تلاش ہے
یہ وہ جنس ہے کہ جہان میں جو نہ بک سکے جو نہ مل سکے
تجھے کیوں وفا کا جنون ہے تجھے کیوں وفا کی تلاش ہے
جو ملے بھی خضر تو اب کہوں کہ سلام آب حیات کو
نہ وہ دل کو ذوق طلب رہا نہ وہ رہنما کی تلاش ہے
دل ناسزا کو یہ چاہتا ہوں کہ چاہ میں کہیں ڈال دوں
اسے ہے گناہ کی جستجو تو مجھے سزا کی تلاش ہے
نئے حوصلے نئے ولولے مری جستجو میں مدام ہیں
مجھے انتہائے تلاش میں بھی تو ابتدا کی تلاش ہے
ترے اس علاج میں دم نہیں تری بس کا روگ یہ غم نہیں
مرے درد کے لئے چارہ گر تجھے کیوں دوا کی تلاش ہے
مجھے جستجو ہے جنون کی مجھے بے خودی کی ہے آرزو
مرے کاروان حیات کو کسی رہنما کی تلاش ہے
ترے ساتھ ہے ترے پاس ہے نہ جدا سمجھ وہ جدا نہیں
یہ خودی کا پردہ اٹھا کے دیکھ اگر ہاں خدا کی تلاش ہے
یہ ہے حشر خوشترؔ ناتواں یہاں نفسی نفسی کا ہے سماں
مجھے اب ہجوم گناہ میں شر دوسرا کی تلاش ہے
غزل
دل ناصبور کو پھر وہی بت بے وفا کی تلاش ہے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی