دل نا مطمئن اندیشۂ برق تپاں میں ہے
جو بے تابی قفس میں تھی وہی اب آشیاں میں ہے
مری بے تابئ دل کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا
خدا جانے ترا حرف تسلی کس زباں میں ہے
یہی انداز ہیں تو غم نہیں کچھ بعد منزل کا
امنگیں جاگ اٹھی ہیں زندگی سی کارواں میں ہے
اسی کے راگ سے گونجیں گی کل راہیں مسرت کی
یہ مانا آج انساں منزل آہ و فغاں میں ہے
کوئی نسبت نہیں منزل رسی کو رہ نوردی سے
وہ لذت کامیابی میں کہاں جو امتحاں میں ہے
یہ تخصیص چمن کیا التجائے باغباں کیسی
بہت اے ہمت پرواز گنجائش جہاں میں ہے
غزل
دل نا مطمئن اندیشۂ برق تپاں میں ہے
نہال سیوہاروی