دل مضطر تری فرقت میں بہلایا نہیں جاتا
کسی پہلو سے یہ نادان سمجھایا نہیں جاتا
نمک پاشی مرے زخموں پہ یہ کہہ کہہ کے کرتے ہیں
ذرا سی بات میں یوں اشک بھر لایا نہیں جاتا
ڈراتا کیوں ہے اے ناصح محبت کی کشاکش سے
پھنسا کر دل کو اس کوچے سے کترایا نہیں جاتا
مری زلفیں ہٹا کر رخ سے وہ کہتے ہیں ہنس ہنس کر
اندھیری رات ہے ایسے میں شرمایا نہیں جاتا
غم و آلام نے اس درجہ ہم کو کر دیا گھائل
خود اپنی داستاں کو ہم سے دہرایا نہیں جاتا
بڑی اس بیکسی کی منزلیں پر ہول ہوتی ہیں
کسی سے جب کوئی تسنیمؔ اپنایا نہیں جاتا

غزل
دل مضطر تری فرقت میں بہلایا نہیں جاتا
جمیلہ خاتون تسنیم