دل مضطر کو ہم کچھ اس طرح سمجھائے جاتے ہیں
کہ وہ بس آ رہے ہیں آ ہی پہنچے آئے جاتے ہیں
نگاہ شوق کے پروردہ نظاروں کی محفل میں
یہ دل بہلے نہ بہلے ہاں مگر بہلائے جاتے ہیں
بظاہر تو بہت نازک ہیں دل اہل محبت کے
یہی شیشے کبھی پتھر سے بھی ٹکرائے جاتے ہیں
ہنسا کرتے تھے سن کر داستان قیس بچپن میں
جواں ہو کر اسی قصہ کو ہم دہرائے جاتے ہیں
وہ دزدیدہ نگاہیں ہوں کہ خنجر آزما ابرو
محبت کی ہر اک منزل پہ رہزن پائے جاتے ہیں
بھری محفل میں سب سے ہیں مخاطب بے حجابانہ
مگر بس ایک ہم ہیں جن سے وہ شرمائے جاتے ہیں
خیال اجرت موہوم پر اقبالؔ دنیا میں
یہ ہم سے زندگی کے بوجھ کیوں اٹھوائے جاتے ہیں

غزل
دل مضطر کو ہم کچھ اس طرح سمجھائے جاتے ہیں
اقبال حسین رضوی اقبال