دل مجروح جب بھی اک نئی کروٹ بدلتا ہے
گل ہر زخم سے ہنستا ہوا نشتر نکلتا ہے
ہوا ہے اور نہ ہوگا سرد دست جور گلچیں سے
شرار دل جو موج رنگ و بو بن کر اچھلتا ہے
یہاں کچھ کم نہیں دیوانگی سے ہوش کا دعویٰ
ادھر سینہ سپر ہوں میں جدھر سے تیر چلتا ہے
میں وہ خاموش بستی ہوں امیدوں کے سمندر میں
کہ جس کی خامشی کی تہ میں اک طوفان پلتا ہے
مقدر کے لکھے پر مطمئن ہونے کو ہو جاؤں
مگر یہ درد رہ رہ کر جو پہلو میں مچلتا ہے
سلامؔ اک دن پہنچ ہی جائیں گے ان کے بھی دامن تک
یہ شعلے جن کی گرمی سے مرا انگ انگ جلتا ہے
غزل
دل مجروح جب بھی اک نئی کروٹ بدلتا ہے
عین سلام