دل حزیں کو تمنا ہے مسکرانے کی
یہ رت خوشی کی ہے یا ریت ہے زمانے کی
بنا گئیں اسے پیچیدہ نت نئی شرحیں
کھلی ہوئی تھی حقیقت مرے فسانے کی
حرم کے پاس پہنچتے ہی تھک کے بیٹھ گئے
وگرنہ راہ تو لی تھی شراب خانے کی
کسی کے سایۂ گیسو کی بات چھڑتی ہے
مرے قریب رہیں گردشیں زمانے کی
میں تیرے غم کا بھی تھوڑا سا جائزہ لے لوں
کبھی ملے مجھے فرصت جو مسکرانے کی
سمیٹ لیں مہ و خورشید روشنی اپنی
صلاحیت ہے زمیں میں بھی جگمگانے کی
بھلا امامؔ تہجد گزار کیا جانیں
کہ رات کتنی حسیں ہے شراب خانے کی
غزل
دل حزیں کو تمنا ہے مسکرانے کی
مظہر امام