EN हिंदी
دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی | شیح شیری
dil-e-fasurda pe sau bar tazgi aai

غزل

دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی

جوشؔ ملسیانی

;

دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی
مگر وہ یاد کہ جا کر نہ پھر کبھی آئی

چمن میں کون ہے پرسان حال شبنم کا
غریب روئے تو غنچوں کو بھی ہنسی آئی

نوید عیش سے بھی لطف عیش مل نہ سکا
لباس غم ہی میں آئی اگر خوشی آئی

کسی طرح بھی زمانے کو بس میں کر نہ سکے
نہ دوستی نہ ہمیں راس دشمنی آئی

عجب نہ تھا کہ غم دل شکست کھا جاتا
ہزار شکر ترے لطف میں کمی آئی

زمانہ ہنستا ہے مجھ پر ہزار بار ہنسے
تمہاری آنکھ میں لیکن یہ کیوں نمی آئی

دیئے جلائے امیدوں نے دل کے گرد بہت
کسی طرف سے نہ اس گھر میں روشنی آئی

ہزار دید پہ پابندیاں تھیں پردے تھے
نگاہ شوق مگر ان کو دیکھ ہی آئی