EN हिंदी
دل فسردہ کو اب طاقت قرار نہیں | شیح شیری
dil-e-fasurda ko ab taqat-e-qarar nahin

غزل

دل فسردہ کو اب طاقت قرار نہیں

زاہدہ زیدی

;

دل فسردہ کو اب طاقت قرار نہیں
نگاہ شوق کو اب تاب انتظار نہیں

نہیں نہیں مجھے برداشت اب نہیں کی نہیں
خدا کے واسطے کہنا نہ اب کی بار نہیں

ہمیشہ وعدے کئے اب کے مل ہی جا آ کر
حیات و وعدہ و دنیا کا اعتبار نہیں

دکھاتی اپنی محبت کو چیر کر سینہ
مگر نمود مرا شیوہ و شعار نہیں

مری بہن مری محبوبہ یہ عجب شے ہے
جہاں میں خاک نہیں کچھ جو دوست وار نہیں