دل بے رحم کی خاطر مدعا کچھ بھی نہیں ہوتا
عجب حالت ہے اب شکوہ گلا کچھ بھی نہیں ہوتا
کوئی صورت ابھرتی ہے نہ میں مسمار ہوتا ہوں
میں وہ پتھر کہ جس کا فیصلہ کچھ بھی نہیں ہوتا
کسی کو ساتھ لے لینا کسی کے ساتھ ہو لینا
فقیروں کے لئے اچھا برا کچھ بھی نہیں ہوتا
کبھی چلنا مرے آگے کبھی رہنا مرے پیچھے
رہ الفت میں چھوٹا یا بڑا کچھ بھی نہیں ہوتا
کبھی دل میں مرے تیرے سوا ہر بات ہوتی ہے
کبھی دل میں مرے تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا
وحی ٹوٹی ہوئی کشتی وہی پاگل ہوائیں ہیں
ہمارے ساتھ دنیا میں نیا کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ سودا ہے نگاہوں کا تجارت دل کی ہے لیکن
محبت میں خسارہ فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا
کبھی دو چار قدموں کا سفر طے ہو نہیں پاتا
کبھی میلوں سے لمبا فاصلہ کچھ بھی نہیں ہوتا
فقط کردار کا مارا ہوا ہے ہر بشر ورنہ
کوئی انسان اچھا یا برا کچھ بھی نہیں ہوتا
فلک پر ہی ستاروں کا کوئی عنوان ہوتا ہے
کسی ٹوٹے ستارے کا پتہ کچھ بھی نہیں ہوتا
بھلے خواہش کروں تیری کسی بھی شکل میں لیکن
مرا مقصد پرستش کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا
اگر دیکھوں تو خامی ہی دکھائی دے ہر اک شے میں
اگر سوچوں تو خود سے بد نما کچھ بھی نہیں ہوتا
بظاہر عمر بھر یوں تو ہزاروں کام کرتے ہیں
حقیقت میں مگر ہم نے کیا کچھ بھی نہیں ہوتا
غزل
دل بے رحم کی خاطر مدعا کچھ بھی نہیں ہوتا
منیش شکلا