دل برباد میں پھر اس کی تمنا کیوں ہے
ہر طرف شام ہے لیکن یہ اجالا کیوں ہے
جس کی یادوں کے دیئے ہم نے بجھا رکھے ہیں
پھر وہی شخص تصور میں اترتا کیوں ہے
جانتا ہوں وہ مسافر ہے سفر کرتا ہے
قریۂ جاں میں مگر آج وہ ٹھہرا کیوں ہے
تھک چکا ہے تو اندھیروں میں رہے میری طرح
چاند کو کس کی طلب ہے یہ نکلتا کیوں ہے
میں وہی خواب ہوں پلکوں پہ سجایا تھا جسے
آج غیروں کی طرح تم نے پکارا کیوں ہے
روز اک بات مرے دل کو ستاتی ہے ضیاؔ
اس قدر ٹوٹ کے تم نے اسے چاہا کیوں ہے
غزل
دل برباد میں پھر اس کی تمنا کیوں ہے
سید ضیا علوی