EN हिंदी
دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا | شیح شیری
dil-e-barbaad ko chhoTa sa makan bhi dega

غزل

دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا

احتشام اختر

;

دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا
جب نیا زخم بھرے گا تو نشاں بھی دے گا

پہلے گزروں گا میں امید و یقیں کی رہ سے
پھر ترا پیار مجھے وہم و گماں بھی دے گا

پیکر رنگ جو پل بھر میں بکھر جائے گا
جاگتی آنکھوں کو خوابوں کا جہاں بھی دے گا

تم جلانا مجھے چاہو تو جلا دو لیکن
نخل تازہ جو جلے گا تو دھواں بھی دے گا

وقت دیتا ہے جنہیں آج کھلونے اخترؔ
انہیں اطفال کو کل تیر و سناں بھی دے گا