دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا
جب نیا زخم بھرے گا تو نشاں بھی دے گا
پہلے گزروں گا میں امید و یقیں کی رہ سے
پھر ترا پیار مجھے وہم و گماں بھی دے گا
پیکر رنگ جو پل بھر میں بکھر جائے گا
جاگتی آنکھوں کو خوابوں کا جہاں بھی دے گا
تم جلانا مجھے چاہو تو جلا دو لیکن
نخل تازہ جو جلے گا تو دھواں بھی دے گا
وقت دیتا ہے جنہیں آج کھلونے اخترؔ
انہیں اطفال کو کل تیر و سناں بھی دے گا
غزل
دل برباد کو چھوٹا سا مکاں بھی دے گا
احتشام اختر