EN हिंदी
دل آزردہ کو بہلائے ہوئے ہیں ہم لوگ | شیح شیری
dil-e-azurda ko bahlae hue hain hum log

غزل

دل آزردہ کو بہلائے ہوئے ہیں ہم لوگ

حرمت الااکرام

;

دل آزردہ کو بہلائے ہوئے ہیں ہم لوگ
کتنے خوابوں کی قسم کھائے ہوئے ہیں ہم لوگ

ایک عالم کے حریف ایک زمانے کے نقیب
جیسے تاریخ کے دہرائے ہوئے ہیں ہم لوگ

ایک مدت ہوئی ہم ڈھونڈھ رہے ہیں خود کو
اپنی آواز کے بھٹکائے ہوئے ہیں ہم لوگ

جس کے شعلوں سے نمو پائیں گے کچھ پھول نئے
آگ سینے میں وہ دہکائے ہوئے ہیں ہم لوگ

جن سے بیدار ہوا لذت آزار کا ذوق
چوٹیں ایسی بھی کئی کھائے ہوئے ہیں ہم لوگ

ایک گتھی جو سلجھ کر بھی نہ سلجھی زنہار
اس کو سلجھا کے بھی الجھائے ہوئے ہیں ہم لوگ

ہوش میں رہ کے بھی لازم ہے کہ مدہوش رہیں
راز آنکھوں کا تری پائے ہوئے ہیں ہم لوگ

گردش وقت کوئی اور ٹھکانا بتلا
محفل دوست سے اکتائے ہوئے ہیں ہم لوگ

آنچ آئی نہ کڑی دھوپ میں لیکن حرمتؔ
چاندنی راتوں کے سنو لائے ہوئے ہیں ہم لوگ