دل آزادہ رو میں وہ تمنا تھی بیاباں کی
قدم رکھتے ہی شق ہونے لگی دیوار زنداں کی
خدا کی رحمتیں اے مطرب رنگیں نوا تجھ پر
کہ ہر کانٹے میں تو نے روح دوڑا دی گلستاں کی
یہ ثابت کر دیا تجھ کو بنا کر دست قدرت نے
کہ ہو سکتی ہیں اتنی خوبیاں صورت میں انساں کی
نسیم صبح ٹھنڈی سانس بھرتی ہے مزاروں پر
اداسی منہ اندھیرے دیکھیے گور غریباں کی
یہ عالم کیا ہے اک مجموعہ ہے ناچیز ذروں کا
یہ دنیا کیا ہے اک ترکیب اجزائے پریشاں کی
ہواؤں کے وہ جھونکے وہ کھلے میدان کی سردی
وہ لہریں چاند سے رخسار پر زلف پریشاں کی
ہماری زندگی کیا سلسلہ اک دل دھڑکنے کا
ہماری موت کیا جنبش ہے اک جذبات پنہاں کی
بنا دیں گی یقیں ہے جوشؔ مرد باخدا اک دن
تپش اندوزیاں سینے میں برق سوز پنہاں کی
غزل
دل آزادہ رو میں وہ تمنا تھی بیاباں کی
جوشؔ ملیح آبادی