EN हिंदी
دل دکھوں کے حصار میں آیا | شیح شیری
dil dukhon ke hisar mein aaya

غزل

دل دکھوں کے حصار میں آیا

عباس تابش

;

دل دکھوں کے حصار میں آیا
جبر کب اختیار میں آیا

دے اسے بھی فروغ حسن کی بھیک
دل بھی لگ کر قطار میں آیا

خوب ہے یہ اکائی بھی لیکن
جو مزہ انتشار میں آیا

دیکھتا ہے نہ پوچھنا ہے کوئی
اجنبی کس دیار میں آیا

یہ تو جانیں مقدروں والے
کون کس کے مدار میں آیا

شاخ پر ایک پھول بھی تابشؔ
مجھ سے ملنے بہار میں آیا