دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہ کامل دیکھ کر
زرد ہو جاتی ہے جس کو شمع محفل دیکھ کر
تیرے عارض پہ یہ نقطہ بھی ہے کتنا انتخاب
ہو گیا روشن ترے رخسار کا تل دیکھ کر
قتل کرنا بے گناہوں کا کوئی آسان ہے
خشک قاتل کا لہو ہے خون بسمل دیکھ کر
بلیوں فرط مسرت سے اچھل جاتا ہے دل
بحر غم میں دور سے دامان ساحل دیکھ کر
آئینے نے کر دیا یکتائی کا دعویٰ غلط
نقش حیرت بن گئے اپنا مقابل دیکھ کر
دیکھ تو لیں دل میں تیرے گھر بھی کر سکتے ہیں ہم
دل تو ہم دیں گے تجھے لیکن ترا دل دیکھ کر
دیکھیے راہ عدم میں اور پیش آتا ہے کیا
ہوش پراں ہو رہے ہیں پہلی منزل دیکھ کر
آرزوئے حور کیا ہو نازؔ دل دے کر انہیں
شمع پر کیا آنکھ ڈالیں ماہ کامل دیکھ کر
غزل
دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہ کامل دیکھ کر
شیر سنگھ ناز دہلوی