EN हिंदी
دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی | شیح شیری
dil DhunDhti hai nigah kisi ki

غزل

دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی

ریاضؔ خیرآبادی

;

دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
آئینے کی ہے نہ آرسی کی

مالک مرے میں نے مے کشی کی
لیکن یہ خطا کبھی کبھی کی

کیا شکل ہے وصل میں کسی کی
تصویر ہیں اپنی بے بسی کی

کھل جائے صبا کی پاک بازی
بو پھوٹے جو باغ میں کلی کی

کم بخت کبھی نہ خوش ہوا تو
اے غم تری ہر طرح خوشی کی

منہ ہم نے ہنسی ہنسی میں چوما
جو ہو گئی بات تھی ہنسی کی

تانا سا تنا ہے میکدے میں
پگڑی اچھلی ہے شیخ جی کی

ہم کو جو دیا تو اور کا دل
دل لے کے یہ اچھی دل لگی کی

یوں بھی تو چلا نہ کام اپنا
دشمن سے بھی ہم نے دوستی کی

پائے گئے جس میں دل کے اجزا
ہوگی وہ خاک اسی گلی کی

ایسی ہے کہ پی سکے گا واعظ
ہے تازہ کشید آج ہی کی

مے خلد میں ہوگی صورت حور
میخانے میں مشکل ہے پری کی

گھر ہے نہ کہیں نشاں لحد کا
مٹی ہے خراب بے کسی کی

سچ یہ ہے کہ زندگی ہو یا موت
ہر چیز بری ہے مفلسی کی

اچھی ہے گرک سے تلخ مے سے
ملتی رہے روز روکھی‌ پھیکی

کچھ کچھ ہے ریاضؔ میرؔ کا رنگ
کچھ شان ہے ہم میں مصحفیؔ کی