EN हिंदी
دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا | شیح شیری
dil dhaDakta hai ki tu yar hai saudai ka

غزل

دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا

اشرف علی فغاں

;

دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا

برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا
یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا

کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے
ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا

سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا
نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی کا

زور منظور نظر تو تو فغاںؔ رکھتا ہے
میں تو بندہ ہوں تری چشم کی بینائی کا