دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا
برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا
یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا
کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے
ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا
سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا
نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی کا
زور منظور نظر تو تو فغاںؔ رکھتا ہے
میں تو بندہ ہوں تری چشم کی بینائی کا

غزل
دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
اشرف علی فغاں