دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں
چھوڑے ہوئے تیروں کا اثر دیکھ رہے ہیں
ہر روز جفائیں ہیں نئی اور نیا غم
سو سو طرح عاشق کا جگر دیکھ رہے ہیں
ہر لمحہ زمانے کا ہے ہنگامہ بہ دامن
پیدا ہے قیامت کا اثر دیکھ رہے ہیں
اے گردش دوراں ترے جاں سوز نظارے
دیکھے نہیں جاتے ہیں مگر دیکھ رہے ہیں
ہم مے کدہ میں جا کے ہوئے تشنہ زیادہ
بدلی ہوئی ساقی کی نظر دیکھ رہے ہیں
آشوب کا اے تاجؔ ہے یہ حال کہ ہر روز
ملتے ہوئے مٹی میں گہر دیکھ رہے ہیں
غزل
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں
ظہیر احمد تاج