دل دادگان لذت ایجاد کیا کریں
سیلاب اشک و آہ پہ بنیاد کیا کریں
کرنا ہے بن کو تازہ نہالوں کی دیکھ بھال
بیتی ہوئی بہار کو وہ یاد کیا کریں
ہاں جان کر امید کی مدھم رکھی ہے لو
اب اور پاس خاطر ناشاد کیا کریں
سنگیں حقیقتوں سے کہاں تک ملول ہوں
رعنائی خیال کو برباد کیا کریں
دیکھو جسے لیے ہے وہ زخموں کی کائنات
ہم ایک اپنے زخم پہ فریاد کیا کریں
رندوں کی آرزو کا تلاطم کہاں سے لائیں
آسودگان مسند ارشاد کیا کریں
کس کو نہیں سکون کی خواہش جہان میں
افتادگان رہ گزر باد کیا کریں
جو ہر نظر میں تازہ کریں میکدے ہزار
سچ ہے سرورؔ رفتہ کو وہ یاد کیا کریں
غزل
دل دادگان لذت ایجاد کیا کریں
آل احمد سرور