دل چھوڑ کے ہر راہ گزر ڈھونڈھ رہا ہوں
بیٹھے ہیں کہاں وہ میں کدھر ڈھونڈھ رہا ہوں
وہ پیش نظر ہیں تو نظر کیوں نہیں آتے
کیا میرا قصور اس میں اگر ڈھونڈھ رہا ہوں
باریک نگاری کی تمنا تو ہے لیکن
ملتا نہیں مضمون کمر ڈھونڈھ رہا ہوں
پھونکوں گا نشیمن کی طرح اپنے اسے بھی
اس واسطے صیاد کا گھر ڈھونڈھ رہا ہوں
کہتے ہیں جسے عرف میں سب صبح بہاراں
اس شام جدائی کی سحر ڈھونڈھ رہا ہوں
جمتا ہی نہیں نوک مژہ پر کوئی آنسو
کانٹے پہ تلے جو وہ گہر ڈھونڈھ رہا ہوں
یہ جان کے اس بت کا ہے پتھر کا کلیجہ
اے برقؔ میں لوہے کا جگر ڈھونڈھ رہا ہوں

غزل
دل چھوڑ کے ہر راہ گزر ڈھونڈھ رہا ہوں
رحمت الٰہی برق اعظمی