EN हिंदी
دل بھی جیسے ہمارا کمرہ تھا | شیح شیری
dil bhi jaise hamara kamra tha

غزل

دل بھی جیسے ہمارا کمرہ تھا

منیش شکلا

;

دل بھی جیسے ہمارا کمرہ تھا
کل اثاثہ زمیں پہ بکھرا تھا

آسماں ہی اٹھا لیا سر پہ
جانے کیا کچھ زمیں پہ گزرا تھا

پھر نئی خواہشیں ابھر آئیں
دل ابھی حادثوں سے ابرا تھا

چاند کی چاندنی بجا لیکن
رنگ اس کا بھی صاف ستھرا تھا

کیا ہوا ڈوب کیوں گیا آخر
خواب تو ساحلوں پہ اترا تھا

آشیاں تو بنا لیا لیکن
اب ہمیں آندھیوں کا خطرہ تھا

اب فقط زندگی بتاتے ہیں
ورنہ اپنا بھی ناز نخرہ تھا