دل بھی داغ نقش کہن سے بجھا ہوا تھا
چاند کے گرد بھی اک ہالہ سا بنا ہوا تھا
اس کو ایک غزل پہنچانی تھی جلدی میں
لیکن رستے میں سناٹا کھڑا ہوا تھا
شعلہ چوم کے رکھے اس نے سانس دیئے میں
میں نے جھک کر دیکھا کاجل بہا ہوا تھا
چھت سے چہرے پر گرتے ہی رہے ستارے
آسمان کا خیمہ تھوڑا پھٹا ہوا تھا
بستی سے نکلے ہیں کچھ مٹی کے کھلونے
انسانوں کا نام و نشاں تک مٹا ہوا تھا
ہاتھ باندھ کر میرے سارے عدو کھڑے تھے
لیکن میں اپنی تخریب پہ تلا ہوا تھا
مشک بھری ہے میں نے دونوں ہاتھوں کٹا کر
سوچوں کے پانی پر پہرہ لگا ہوا تھا
اس کی آنکھیں بھی کچھ روئی روئی سی تھیں
اور میں بھی اس شام بہت ہی تھکا ہوا تھا
بھیگ رہا تھا سبزہ اوس کے موتی پہنے
سوکھا بادل کنوئیں کے اندر گرا ہوا تھا
بچہ اک پہیے کو لے کر بھاگ رہا تھا
وقت جھکی دیوار کے اوپر بہا ہوا تھا
شاہراہوں پر اکھڑے اکھڑے سانس پڑے تھے
دریا بھاری شہر کے نیچے دبا ہوا تھا
سینے سے سانسوں کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا
قیدی کے پیروں کا تالا کھلا ہوا تھا

غزل
دل بھی داغ نقش کہن سے بجھا ہوا تھا
شہنواز زیدی