دل بھر آیا پھر بھی راز دل چھپانا ہی پڑا
سامنے اس بد گماں کے مسکرانا ہی پڑا
وہ جو روٹھے میں نے بھی کھا لی نہ ملنے کی قسم
پھر نہ دل مانا تو خود جا کر منانا ہی پڑا
اف ری مجبوری مزاج یار میں ہو کر دخیل
راز داں خود اپنے دشمن کو بنانا ہی پڑا
مجھ کو فصل گل میں تیور دیکھ کر صیاد کے
آشیانہ چھوڑ کر گلشن سے جانا ہی پڑا
ضبط کا یارا نہیں صیاد کا بھی ہے خیال
نالۂ دل سوز کو نغمہ بنانا ہی پڑا
روکتے کب تک تقاضائے تلافیٔ ستم
سر جھکائے شرم سے میت پہ آنا ہی پڑا
آج انجمؔ مسکرا کر اس نے پھر دیکھا مجھے
شکوۂ جور و جفا پھر بھول جانا ہی پڑا
غزل
دل بھر آیا پھر بھی راز دل چھپانا ہی پڑا
انجم مانپوری