EN हिंदी
دل بلا سے نثار ہو جائے | شیح شیری
dil bala se nisar ho jae

غزل

دل بلا سے نثار ہو جائے

چراغ حسن حسرت

;

دل بلا سے نثار ہو جائے
آپ کو اعتبار ہو جائے

قہر تو بار بار ہوتا ہے
لطف بھی ایک بار ہو جائے

زندگی چارہ ساز غم نہ سہی
موت ہی غم گسار ہو جائے

یا خزاں جائے اور بہار آئے
یا خزاں ہی بہار ہو جائے

دل پہ مانا کہ اختیار نہیں
اور اگر اختیار ہو جائے