EN हिंदी
دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے | شیح شیری
dil bahut masruf tha kal aaj be-karon mein hai

غزل

دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے

شہزاد احمد

;

دل بہت مصروف تھا کل آج بے کاروں میں ہے
سات پردوں میں جو رہتا تھا وہ بازاروں میں ہے

خاک کے پتلے فلک کی سرحدوں کو چھو چکے
اور جسے انسان کہتے ہیں ابھی غاروں میں ہے

لاج رکھ لیتے ہیں میری منہ پہ کچھ کہتے نہیں
دشمنی کا کچھ سلیقہ تو مرے پیاروں میں ہے

سب کو دیکھا اور کسی کو دیکھ کر ٹوٹا نہیں
آئنہ شاید ابھی اپنے پرستاروں میں ہے

دھوپ کیسی تھی کہ میرے ہاتھ کالے کر گئی
تیرگی کا رنگ شاید نور کے دھاروں میں ہے

سب صدائیں لفظ ہیں لفظوں کے پیچھے کچھ نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ کوئی سر بھی دستاروں میں ہے

بر سر پیکار دونوں ہیں نتیجہ کچھ نہیں
جوش ہے دریاؤں میں اور صبر دیواروں میں ہے

خیر و شر کی مشعلوں کو تو بجھاتا کیوں نہیں
میں تو کیا ہوں اک فرشتہ بھی گنہ گاروں میں ہے

دیکھتے کیا ہو کہ خود منظر تمہیں تکنے لگا
بیچتے کیا ہو کہ یوسف بھی خریداروں میں ہے

کوئی بھی منزل نہیں اپنی کشش دونوں طرف
پاؤں مٹی میں گڑے ہیں آنکھ سیاروں میں ہے

اب حقیقت جان کر شہزادؔ کیا لینا مجھے
وجہ غازہ ہی سہی شعلہ تو رخساروں میں ہے