دل اپنے رنج و غم سے جام جہاں نما تھا
اب آپ ہی بتائیں اچھا تھا یا برا تھا
صحرا تھا یا چمن تھا جانے وہی کہ کیا تھا
اس دل کی انتہا ہے جو مدتوں جلا تھا
تڑپوں تو راز کھولوں سنبھلوں تو عشق نا خوش
جس حال کو میں سمجھا اچھا وہی برا تھا
پوچھا نہ زندگی میں یوں تو کسی نے آ کر
مرنے کے بعد جو تھا وہ مجھ کو پوچھتا تھا
شب کو مری صدائیں مجھ تک پلٹ کے آئیں
نالوں کی کیا خطا تھی جب بند راستا تھا
منزل پہ جب گرا تھا تھک کر تو میں نے دیکھا
قصہ مرا زبان عالم پہ چل رہا تھا
جان حزیں نکلتی شام فراق کیوں کر
وہ رات تھی اندھیری رستہ نہ سوجھتا تھا
میری طرف چلے تم جب جانکنی میں تھا میں
دنیا ہے ایک آتا تھا ایک جا رہا تھا
اک طرح کی مصیبت ہوتی تو جھیل لیتے
ہر شب نئی زمیں تھی ہر دن فلک نیا تھا
افسوس ہے کہ عمر فانی نے ختم ہو کر
مجھ کو وہی بتایا جس کو میں جانتا تھا
ڈھونڈیں گی بعد میرے مجھ کو چراغ لے کر
وہ محفلیں کہ جن میں ثاقبؔ غزل سرا تھا
غزل
دل اپنے رنج و غم سے جام جہاں نما تھا
ثاقب لکھنوی