EN हिंदी
دل اپنا یاد یار سے بیگانہ تو نہیں | شیح شیری
dil apna yaad-e-yar se begana to nahin

غزل

دل اپنا یاد یار سے بیگانہ تو نہیں

عبد الملک سوز

;

دل اپنا یاد یار سے بیگانہ تو نہیں
گویا کہ خالی مے سے یہ پیمانہ تو نہیں

منتا ہے میری بات تو نظریں ملا کے سن
یہ میرا حال زار ہے افسانہ تو نہیں

ہنستے ہو مل کے دنیا سے کیا میرے حال پر
میں آپ کا دیوانہ ہوں دیوانہ تو نہیں

اے شمع تجھ کو جلنا ہے اب اس کی آگ میں
اک شعلہ تجھ سے لپٹا ہے پروانہ تو نہیں

دانستہ مجھ سے جاتا ہے غیروں کے سامنے
ورنہ وہ میرے حال سے بیگانہ تو نہیں

اے برق تجھ کو دھوکا ہوا مجھ کو دیکھ کر
ظالم قفس ہے یہ میرا کاشانہ تو نہیں

تسکین خلق ساقی کو پیتا ہوں میں شراب
میری نظر میں ساقی ہے پیمانہ تو نہیں

پاس ادب ہے کیا اٹھے آنکھ اس کے روبرو
اس میں سوال جرأت رندانہ تو نہیں

جھکتے ہیں اس کو ہر جگہ موجود پا کے سوزؔ
دل میں ہمارے کعبہ و بت خانہ تو نہیں