دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو
ہوس کو عشق کا سودا ہے دیکھیے کیا ہو
کسی کے لمحۂ الفت کی یاد کیف آور
دل حزیں کا سہارا ہے دیکھیے کیا ہو
بچا بچا کے رکھا تھا جسے وہی کشتی
سپرد موجۂ دریا ہے دیکھیے کیا ہو
سکوت بت کدۂ آذری سے تنگ آ کر
خدا کو میں نے پکارا ہے دیکھیے کیا ہو
شکیب و صبر کا پیمانہ ٹوٹنے پر بھی
وہی وفا کا تقاضا ہے دیکھیے کیا ہو
ہزار بار ہی دیکھا ہے سوچنے کا مآل
ہزار بار ہی سوچا ہے دیکھیے کیا ہو
ضیاؔ جو پی کے نہ بہکا وہ رند مے خانہ
پیے بغیر بہکتا ہے دیکھیے کیا ہو
غزل
دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو
ضیا فتح آبادی