دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے
ہم اگر رقص میں ہیں سارا جہاں رقص میں ہے
حیرت آئنہ تنہا نہ یہاں رقص میں ہے
جانے کیا دیکھ لیا دل نے کہ جاں رقص میں ہے
چشم ساقی میں ہے جس دن سے مرا شیشۂ دل
عالم کار گہ شیشہ گراں رقص میں ہے
جب سے اس نام کا آیا ہے ادا کر لینا
کون جانے یہ حقیقت کہ زباں رقص میں ہے
اے دلؔ اس بارگہہ حسن میں ہوں جب سے مقیم
عشق شاید کہ مری طبع رواں رقص میں ہے
غزل
دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے
دل ایوبی