دل آزاری محبت میں کہاں معلوم ہوتی ہے
عجب تسکیں پس سوز نہاں معلوم ہوتی ہے
نگاہ ناز اکثر داستاں معلوم ہوتی ہے
کسی کی آنکھ ہم وصف زباں معلوم ہوتی ہے
خدایا خیر کیا تازہ تباہی آنے والی ہے
خموشی سے قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے
چھپی جاتی ہے منزل ہی غبار راہ منزل میں
مری قسمت شریک کارواں معلوم ہوتی ہے
یہ گرم گفتگو صیاد کس سے ہے ذرا سن لو
قفس والو صدائے باغباں معلوم ہوتی ہے
مری باتیں تو وہ شکوہ سمجھ کر سن نہیں سکتے
خموشی بھی انہیں میری گراں معلوم ہوتی ہے
فریب شوق میں منزل جنہیں آنکھیں سمجھتی تھیں
وہی اب آہ گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
غرور حسن سے کوشش متانت اختیاری کی
تمہاری شوخیوں میں رائیگاں معلوم ہوتی ہے
زمانے کی زباں پر ہے انہیں کی داستاں طالبؔ
انہیں ہر بات میری داستاں معلوم ہوتی ہے
غزل
دل آزاری محبت میں کہاں معلوم ہوتی ہے
طالب باغپتی