EN हिंदी
دکھاتے ہیں ادا کچھ بھی تو آفت آ ہی جاتی ہے | شیح شیری
dikhate hain ada kuchh bhi to aafat aa hi jati hai

غزل

دکھاتے ہیں ادا کچھ بھی تو آفت آ ہی جاتی ہے

رادھے شیام رستوگی احقر

;

دکھاتے ہیں ادا کچھ بھی تو آفت آ ہی جاتی ہے
سنبھل کر لاکھ چلتے ہیں قیامت آ ہی جاتی ہے

محبت میں ہیں صبر و شکر کے ہر چند ہم قائل
مگر کچھ کچھ کبھی لب پر شکایت آ ہی جاتی ہے

جو سچ پوچھو تو ہیں عاشق بھی پیرو نازنینوں کے
بدن میں ناتوانی سے نزاکت آ ہی جاتی ہے

مجاز اک پردۂ ادراک ہے تو چشم بینا کو
کسی صورت نظر شکل حقیقت آ ہی جاتی ہے

نہیں جذب دل عاشق سے ہے معشوق کو چارہ
اگر بے درد بھی ہو تو محبت آ ہی جاتی ہے

بتان سیمتن کے وصل سے ہم فیض پاتے ہیں
وہ آتے ہیں تو اپنے گھر میں دولت آ ہی جاتی ہے

ترے اشعار رنگیں سے بھلا فرحت نہ ہو احقرؔ
کہ ان پھولوں سے خوشبوئے فصاحت آ ہی جاتی ہے