دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
خیال کی لامکانیوں میں ابھر رہا ہے مکان سا کچھ
کوئی تعین کوئی تیقن نظر کو محدود رکھ سکے جو
فلک سے نیچے بہت ہی نیچے بنا ہے اک سائبان سا کچھ
نمو کا طوفاں تھا آفرینش کی زد پہ ہم تم کھڑے تھے دونوں
تمہیں بھی کچھ یاد آئے شاید مجھے تو آتا ہے دھیان سا کچھ
ہوائیں وابستگی سے پر ہیں فضا پہ موجودگی ہے طاری
نواح جاں میں لہک رہا ہے بسے بسائے جہان سا کچھ
کہیں یہ منظر میں قید لمحے کہیں یہ لمحوں میں قید منظر
رسائی کی آزمائشوں میں رہائی کا امتحان سا کچھ
اندھیرے کاغذ کی وسعتوں میں کہیں کہیں روشنی کے دھبے
یہ سعئ تجسیم نا بیانی یہ اشتباہ بیان سا کچھ
غزل
دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ
عبد الاحد ساز