دیواروں پر سائے سے لہراتے تھے
لوگ اس کی تصویریں دیکھنے آتے تھے
اس بستی میں مجھ کو بھی لے جانا تھا
جس بستی میں چاند بدن گہناتے تھے
اس کیاری میں میری تیری آنکھیں تھیں
جس کیاری میں تارے بوئے جاتے تھے
پھول کٹورا پانی آنکھیں اور دیے
لوگ کہیں ویرانے میں رکھ آتے تھے

غزل
دیواروں پر سائے سے لہراتے تھے
عشرت آفریں