EN हिंदी
دیواروں پر سائے سے لہراتے تھے | شیح شیری
diwaron par sae se lahraate the

غزل

دیواروں پر سائے سے لہراتے تھے

عشرت آفریں

;

دیواروں پر سائے سے لہراتے تھے
لوگ اس کی تصویریں دیکھنے آتے تھے

اس بستی میں مجھ کو بھی لے جانا تھا
جس بستی میں چاند بدن گہناتے تھے

اس کیاری میں میری تیری آنکھیں تھیں
جس کیاری میں تارے بوئے جاتے تھے

پھول کٹورا پانی آنکھیں اور دیے
لوگ کہیں ویرانے میں رکھ آتے تھے