دیواروں میں در ہوتا تو اچھا تھا
اپنا کوئی گھر ہوتا تو اچھا تھا
اس کا رنگیں آنچل اوڑھ کے سو جاتے
اور ایسا اکثر ہوتا تو اچھا تھا
رنگ آ جاتے مٹھی میں جگنو بن کر
خوشبو کا پیکر ہوتا تو اچھا تھا
بادل پربت جھرنے پیڑ پرندے چپ
وہ بھی ساتھ اگر ہوتا تو اچھا تھا
کیوں آوارہ پھرتے سونی گلیوں میں
کوئی اگر گھر پر ہوتا تو اچھا تھا
غزل
دیواروں میں در ہوتا تو اچھا تھا
افضال فردوس