دیوار کی صورت تھا کبھی در کی طرح تھا
وہ دھند میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح تھا
دیکھا تو شگفتہ سا لگا پھول کی صورت
اترا تو مری روح میں خنجر کی طرح تھا
میں آج تہی دست ہوں اک خاص سبب سے
ورنہ میں زمانے میں سکندر کی طرح تھا
کچھ وقت نے ترتیب بگاڑی مرے گھر کی
کچھ گھر بھی مرا میرے مقدر کی طرح تھا
وہ جاگتے لمحوں میں بھی پتھر کی طرح تھی
میں نیند کے عالم میں بھی آذر کی طرح تھا
غزل
دیوار کی صورت تھا کبھی در کی طرح تھا
شمیم روش